اس موقع پر مغربی ایشیا کی تازہ ترین صورتحال، مقبوضہ سرزمینوں کی حالت، شام، لبنان، یمن، افغانستان، بحیرہ خزر، قفقاز، یوکرین اور ایران اور امریکہ کے بالواسطہ مذاکرات سمیت علاقائی اور بین الاقوامی معاملات پر غور کیا گیا۔
سید عباس عراقچی اور لاوروف نے اسلامی جمہوریہ ایران اور روس کے مابین تعاون کے جامع معاہدے کو باہمی تعاون کا اہمترین جلوہ اور سیاست، معیشت، تجارت، سیاحت، سائنس، تعلیم، ثقافت اور میڈیا میں تعاون کی مضبوط بنیاد قرار دیا جس کے ذریعے عوامی سطح پر رابطوں میں فروغ حاصل ہوگا۔
دونوں حلیفوں نے گزشتہ ایک سال کے دوران ایران اور روس کے درمیان تجارت میں قابل ذکر اضافے کا خیرمقدم کیا اور گنجائشوں سے مزید استفادہ کرنے پر زور دیا۔
اس موقع پر سید عباس عراقچی نے فلسطین، شام، لبنان اور افغانستان کے سلسلے میں ایران کی اصولی پالیسیوں کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے کہا کہ تہران علاقے کے حالات پر گہرائی سے نظر رکھے ہوئے ہے اور ان تمام ممالک میں قیام امن، ان کے استحکام، اقتدار اعلی اور ارضی سالمیت پر زور دیتا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران غیرملکی مداخلت، دہشت گردی اور صیہونیوں کے غاصبانہ قبضے کی مخالفت پر بھی زور دیتا ہے۔
انہوں نے ایران اور امریکہ کے مابین بالواسطہ مذاکرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ روس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن اور ایران کا اسٹریٹیجک اتحادی ہے، لہذا اس راستے میں بھی ایران کے ساتھ تعاون کرسکتا ہے اور اس موضوع پر ماسکو کے ساتھ مشوروں کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔
روس کے وزیر خارجہ نے اس موقع پر سید عباس عراقچی کو خیرمقدم کہا اور بتایا کہ روس کے صدر پوتین نے ایران کے وزیر خارجہ کے ساتھ تفصیلی اور طویل بات چیت کے بعد رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام پڑھا جس کے بعد وہ بہت زیادہ خوش ہیں۔
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے بھی ایران اور روس کے مابین تعاون کو دونوں ملکوں کے اقوام کے لیے انتہائی اہم قرار دیا اور یوریشین ممالک اور ایران کے مابین آزاد تجارت اور برکس اور شنگھائی تعاون تنظیموں میں ایران اور روس کی شمولیت کو تہران اور ماسکو کے تعلقات میں مزید فروغ کے لیے انتہائی مفید قرار دیا۔
انہوں نے مقبوضہ سرزمینوں کے سلسلے میں روس کی پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ماسکو ہر اس منصوبے کی مخالفت کرے گا جس کے تحت فلسطینی عوام کو جبری طور پر کوچ کرایا جا رہا ہو۔
سرگئی لاوروف نے کہا کہ ماسکو مغربی ایشیا میں بدامنی اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی بھی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔
انہوں نے ایٹمی موضوع میں ایران کے ذمہ دارانہ رویے کی قدردانی کی اور ایران اور امریکہ کے مابین بالواسطہ مذاکرات کا خیرمقدم کیا۔
روس کے وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ کی غیرقانونی پابندیوں کے خاتمے پر مرکوز ہونے پر مبنی ایران کا موقف عقلمندی پر مبنی ہے اور ماسکو ان مذاکرات میں ہر طرح کا تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔
آپ کا تبصرہ